ایمان مزاری کی عدالت سے غیرمشروط معافی، اداروں کیخلاف بیانات کا کیس خارج

اسلام آباد ہائی کورٹ نے اداروں کےخلاف بیانات اور نازیبا الفاظ کے استعمال پر رہنما تحریک انصاف شیریں مزاری کی صاحبزادی ایمان مزاری کی جانب سے  عدالت میں غیر مشروط معافی مانگنے پر مقدمہ خارج کردیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایمان مزاری کے خلاف اداروں کے خلاف بیانات اور نازیبا الفاظ کے استعمال کے کیس کی سماعت ہوئی۔

چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کیس کی سماعت کی، ایمان مزاری اپنی وکیل زینب جنجوعہ کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئیں۔

وکیل ایمان مزاری کا کہنا تھا کہ ہم تحفظات کے باوجود عدالتی ہدایت پرتفتیش کا حصہ بنے، پولیس کو کچھ بیان دے  رہے تھے وہ کچھ اور ہی لکھ رہے تھے، ہم نے پولیس کو کہا کہ  ہم  خود تحریری بیان جمع کرائیں گے، ہم نے توپہلے دن کہہ دیا تھا کہ جو لفظ بولا گیا اس کا کوئی جواز نہیں۔

چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ ایمان مزاری آفیسر آف کورٹ ہیں،ان کو ایسے الفاظ نہیں بولنے چاہئیں، ایمان مزاری معذرت کرچکیں،اب مزید کیا چاہتے ہیں؟ جس پر  وکیل وزارت دفاع کا کہنا تھا کہ ایمان مزاری باقاعدہ پریس میں اپنے بیان پر معافی مانگیں۔

ایمان مزاری نے عدالت میں غیر مشروط معافی مانگ لی۔ جس پر  عدالت نے ریمارکس دیےکہ ایک ذمہ دار شہری ہونےکے ناطے آپ کو عام حالات میں ایسے ریمارکس نہیں دینے چاہیے تھے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ ایمان مزاری نے غیر مشروط معافی مانگی ہے اس لیے ان کے خلاف ایف آئی آر کی ضرورت نہیں، ایمان مزاری نے معافی مانگی اور  ندامت کا اظہار کیا ہے، ایمان مزاری  نے مستقبل میں جرم نہ دہرانے کی واضح یقین دہانی کرائی ہے۔

چیف جسٹس نےکہا کہ وہ اس عدالت کے سامنے اپنے بیان پرمعذرت کا اظہار کرچکی ہیں، اس بیان کا وقت بھی دیکھیں،ان کی والدہ کے ساتھ اس وقت کیا ہوا تھا۔

وکیل وزارت دفاع نےکہا کہ ایمان مزاری ہماری بچی کی طرح ہیں لیکن ان کا پرانا کنڈکٹ بھی دیکھیں۔

عدالت عالیہ نے ایمان مزاری کے خلاف نازیبا الفاظ کے استعمال کا مقدمہ خارج کرنے کی درخواست منظور کرتے ہوئے  مقدمہ خارج کردیا۔