مقبوضہ جموں و کشمیر میں اُردو زبان

اہمیت، ضرورت اور تقاضے

اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے
 داغ دہلوی نے اس شعر میں بڑی خوبصورتی سے اردو کی سربلندی کا تذکرہ کیا ہے۔ اس بات میں بھی کوئی دورائے نہیں کہ اردوایک بلا کی شعری زبان ہے جو ہر شخص کو اپنی طرف متوجہ کر لیتی ہے۔
اردو کی تاریخ دلچسپ رہی ہے۔ گویا یہ زبان کسی قوم یا مذہب کی دین نہیں ہے، بلکہ مختلف زبانوں کے آپسی میل سے ایک نئی زبان وجود میں آئی جسے آج ہم ’’اردو‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ اِن زبانوں میں عربی، ہندی، فارسی، ترکی، لاطینی یہاں تک کہ سنسکرت زبانوں کے الفاظ بھی شامل ہیں۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں اردو :
 کے معاملے میں اردو کی کہانی کچھ مختلف ہے۔ یہاں بدھ مت کے بعد کے بیشتر دور میں سنسکرت ہی ادب، تاریخ اور دربار کی زبان تھی۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ جب یہاں ہندو راجاؤںکی سلطنت کمزور پڑی تواِسی کے ساتھ سنسکرت کا بھی زوال ہوا۔ لیکن جب شاہ میر سلطنت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کا اقتدار سنبھالا تو سنسکرت کی جگہ فارسی نے لے لی۔
تاہم درباری زبان فارسی ہونے کے باوجود بھی’’ راجترنگنی’’ جو کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کی تاریخ کا ایک اہم ماخذ ہے، سنسکرت میں لکھی جاتی رہی۔ جب مغلوں نے کشمیر پر قبضہ کر لیا تو ان کی آمد کے ساتھ فارسی کا بھی عروج ہوا۔لیکن ایک وقت ایسا بھی آیا جب فارسی کا زوال ہوا۔ اس کی ابتدا سکھوں کی آمد سے ہوئی۔ گویا سکھ سلطنت کا مرکز لاہور تھا اور یہ بھی سچ ہے کہ لاہور کی درباری زبان بھی فارسی تھی۔ لیکن ہندوستانی عوام کی بول چال کی زبان اردو تھی۔
1846ء میں جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے کشمیر کو امرتسر معاہدہ کے تحت 75لاکھ میں گلاب سنگھ کو فروخت کیا تو اس وقت بھی امرتسر معاہدہ کا مسودہ فارسی میں ہی تیار کیا گیا تھا۔ جب گلاب سنگھ نے اقتدار سنبھالا تو انہوں نے ڈوگری کو آگے بڑھانے کی کوشش کی لیکن اُس وقت ڈوگری، فارسی کی جگہ نہ لے سکی۔تاہم اُس وقت اردو دیگر سرزمین ِہند میں تیزی سے ترقی کر رہی تھی۔اِس کی ایک مثال یہ ہے کہ 1857 میں زبردست بغاوت کے دوران جب ایسٹ انڈیا کمپنی کو گلاب سنگھ کی مدد کی ضرورت تھی تو مدد کی درخواست انہوں نے ایک خط کے ذریعے مانگی جو اردوزبان میں لکھا ہوا تھا۔
 آخر کار 1889ء میں پرتاپ سنگھ نے اردو کو جموں و کشمیر کی سرکاری زبان کا درجہ دیا۔ جس کی وجہ سے جموں و کشمیر میں موجودہ لسانی تنوع کے ساتھ اردو کے استعمال سے بہتر رابطے کرنے میں مدد ملی۔ 1957 میں جب ہندوستانی ریاستوں کی لسانی تنظیم ہوئی تو اس دوران بھی اردو ہی جموں و کشمیر کی سرکاری زبان رہی اور کمال کی بات یہ تھی کہ یہ واحد ریاست تھی جہاں غیر مادری زبان سرکاری زبان تھی۔
موجودہ منظرنامہ:
 جب ریاست سے 370 ہٹایا گیا اور ریاست مقبوضہ جموں و کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تو ایک بڑا سوال یہ بھی سامنے آیا کہ کیا اردو اپنا سرکاری زبان ہونے کا درجہ اور اہمیت دونوں کھو دے گی ؟۔ واضح رہے مقبوضہ جموں کشمیر میں روایتی طرز کی زندگی سے لے کر لباس اور مادری زبان تک سب ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اِس خطے میں رہنے والے لوگ مختلف بولیاں بولتے ہیں۔ مثال کے طور کشمیری، ڈوگری، بودھی، بالتی، ہندی، گوجری، پنجابی، پہاڑی، پوگلی، سرازی، دردی، شینا، بھدرواہی، کشتواڑی وغیرہ۔ لیکن اردو ایک ایسی زبان ہے جو یہاں کے لوگوں کی آپسی بول چال کا ذریعہ بنی۔جیسے کشمیر میں رہنے والے اشخاص کی مادری زبان کشمیری ہے اور جموں میں رہنے والے ڈوگرا کی مادری زبان ڈوگری ہے، لیکن جب ان دونوں کو آپس میں بات چیت کرنی ہوتی تو یہ اردو کا سہارا لیتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اردو نے یہاں کے لوگوں کو آپس میں جوڑے رکھاہے۔
جنوری2018میں پی ڈی پی۔ بی جے پی حکومت نے اردو زبان کی ترقی و فروغ کے لئے پہلی مرتبہ ایک ریاستی کونسل تشکیل دی تھی۔ حکومت نے یہ استدلال کیا تھا کہ’’ اردو محض سرکاری زبان یا تمام خطوںمیں عام بول چال کی زبان نہیں، بلکہ یہ برصغیر ہند کے ثقافتی ورثے کا ایک وسیع ذخیرہ بھی ہے جسے گنگا جمنی تہذیب کے نام سے جانا جاتا ہے ۔‘‘
یہ بات سچ ہے کہ ایک صدی سے بھی زیادہ عرصے تک یہاں کے محصولات کے ریکارڈ، عدالتوں اور پولیس کے ریکارڈ میں اردو ہی استعمال ہوئی۔ تاہم انگریزی کو بھی سرکاری مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ اور اب 3 ستمبر کو بی جے پی کی زیر قیادت مرکزی حکومت نے ہندی، کشمیری، ڈوگری، اردو اور انگریزی کو سرکاری زبانوں کے طور پر اپنانے کا اعلان کیا ہے۔ ساتھ ہی پارلیمنٹ کے آئندہ مونسون سیشن میںبل متعارف کرنے کا اعلان بھی کیا۔ لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ جموں کشمیر میں صرف ڈوگرا اور کشمیری نہیں رہتے۔ اور متعدد افراد نے پنجابی، گوجری اور پہاڑی زبانوں کو سرکاری زبان کے طور پر شامل نہ کرنے کے فیصلے پر تنقید کی ہے۔سکھ برادری کا کہنا ہے کہ یہ بِل اقلیت کے خلاف ہے جبکہ پہاڑی اور گوجر کہتے ہیں کہ یہ بِل امتیازی سلوک ہے جس میں سکھ ، گوجر اور پہاڑی لوگوں کو باہر رکھا گیا ہے۔
یہ بھی سچ ہے کہ مقبوضہ جموں کشمیر کا بیشتر ادب و ثقافت اردو زبان میں ڈھل چکا ہے اور یہاں کے لوگوں کو اردو سے دور کرنے کا مطلب روح کو جسم سے باہر نکالنے کے برابر ہے۔لہذا اردو کو فروغ دینا اُن سب لوگوں کے لئے عملی اور سیاسی فرض ہے جو جموں کشمیر کو متحد دیکھنا چاہتے ہیں۔آخر میں یہ بات کہنا لازمی ہے کہ جموں کشمیر کے لوگ مختلف عقائد کا دعویٰ کرتے ہیں، مختلف ثقافت رکھتے ہیں، مختلف مادری زبانیں بولتے ہیں اور مختلف طرزِزندگی رکھتے ہیں لیکن ’’اردو‘‘ اِن کو جوڑے رکھتی ہے اور یہ کہنا بجا ہوگا کہ اردو مکمل طور پر ’’سیکولر‘‘ ہے۔